انٹرنیشنل کمیونسٹ پارٹی

8 مارچ 2022
خواتین اور بین الاقوامی کمیونسٹ انقلاب

۸ مارچ جنگ کے وقت

 

یہ وہ تحریر ہے جو ہم نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شائع کرنے کے لیے تیار کی تھی۔ آج، جب یورپ میں بورژوا جنگ چھڑ رہی ہے، ہمیں یوکرین کی ان خواتین کی یاد آتی ہے جنہیں کئی دہائیوں سے مغرب کے امیر ترین ممالک میں دیکھ بھال کرنے والوں کے طور پر کام کرنے کے لیے اپنے خاندانوں کو چھوڑنا پڑا ہے۔ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا جبر اور مصائب کی سرمایہ دارانہ حکومت جو کہ پرولتاریوں کے لیے پڑوسی ممالک سے بہتر نہیں ہے۔ ان عورتوں اور ان کے بچوں کی قربانی کی کبھی کسی بورژوا مردار نے مذمت نہیں کی۔ یہ وہی بورژوا انتظام نشر و اشاعت ہے جو آج جنگ سے فرار ہونے والوں کے حالات پر رونے کا ڈرامہ کرتا ہے، لیکن صرف جَنگجُوئی انتظام نشر و اشاعت کے مقاصد کے لیے اور مختلف ممالک کے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے۔


* * *

یہ بورژوا فیمنسٹ تحریک نہیں تھی بلکہ سوشلسٹ انٹرنیشنل، پھر کمیونسٹ، جس نے خواتین کے عالمی دن کا اعلان کیا۔

تو آج اصل عالمی یوم خواتین کا کیا  بچا ہے؟

عورتوں پر ظلم کی ابتدا طبقاتی سماج سےہوتی ہے


بورژوا فیمنسٹ تحریک کے مطمع نظر سرمایہ دارانہ پیداواری تعلقات سے جڑے ہوے ہیں، اور مکمل طور پر الگ ہیں اس سوچ سے جو 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں سوشلسٹ خواتین نے پھیلائیں تھی۔ ان خواتین نے زور دے کر کہا کہ طبقاتی جدوجہد کے بغیر، اور پرولتاریہ انقلاب کے بغیر، خواتین سمیت تمام مظلوم لوگوں کے لیے جدوجہد فریب ہے۔

تمام قوموں کی عورتوں پر ظلم کی بنیاد طبقاتی معاشرے کی ترقی کے اندر پائی جاتی ہے، جہاں اس زیادتی نے خاندان اور پدر شاہی نظام کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عورتوں پر یہ ظلم و ستم جو عیاں طور پر طبقاتی معاشرے کی طرف سے ہے صرف تب ہی ختم ہو سکتا ہے جب ہمارے معاشرتی نظام کو تباہ کیا جائے گا، جس کی بنیاد ذاتی ملکیت، اجرت-مزدوری اور مرد کا مرد پر اور مرد کا عورت پر استحصال مبنی ہے۔ صرف کمیونسٹ انقلاب ہی سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے وحشت انگیز ڈھانچے اور اس کی تقسیم اور جبر کی لامحدود شکلوں کو گرا سکے گا: مزدوروں پر، عورتوں پر، ہر اس گروہ پر جس کی شناخت کی جا سکے، جو مذہبی، نسلی، جنسی، خصائل سے پہچانا جاتا ہے۔

مارکسسٹ کلاسکس کمیونسٹوں کو صحیح رخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

طبقاتی معاشرہ قدرتی اور ابدی نہیں ہے۔ سرمایہ داری سے پہلے بھی ایک وقت تھا، سرمایہ داری کے بعد بھی ایک وقت آئے گا۔

ابتدائی کمیونزم میں، انسانی گروہ بندیوں کی بقا کے لیے عمل پیدائش ضروری تھا۔ اس لیے، خاندانوں کی تشکیل ماؤں کے ذریعے کی جاتی تھی اور وہاں دیوی-ماؤں کی  پوجا ہوتی تھی۔ لیکن عورتوں کا مردوں پر کوئی جبر نہیں تھا،  ’’matriarchy’’ ک کوئی نظام نہیں تھا ، اور معاشروں میں اشیاء کی ذاتی جمع نہیں تھی۔

نیا سنگی دور کے اختتام کی طرف، پیداواری قوتوں کی ترقی، زراعت اور جانور پالنا، ان تبدیلیوں نے آہستہ آہستہ راستہ کھول دیا تھا ایک ایسے طبع پیداوار کے لیے جس میں طبقاتی تقسیم اور سامان کی نجی ملکیت تھی۔ یہ خاندان اور پدرانہ نسب پر تشکیل تھا۔ عورتوں کی حالت اب الٹ ہو گئی تھی۔ عورت، جس کو پہلے پیدائش کرنے والی عزت سے دیکھا جاتا تھا، اب پدر شاہی ملکیت کی حفاظت کے کردار   تک نیچے کر دیا گیا۔

سرمایہ داری اپنی پیداواری قوتوں کی تباہ کن ترقی سے، مستقبل کے طبقے کے بغیر معاشرے کی مادی بنیادیں دیتا ہے۔ لیکن ابھی ایک سڑی ہوئی لاش کی طرح گھسیٹا ہوا جا رہا ہے، ہر جگہ موت اور مایوسی پھیلاتا ہوا، اپنے قبر کھودنے والے کے انتظار میں ہے، جو ہوگا انقلابی پرولتاریہ۔ مستقبل کی کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام پیداوار اور اس کے استحصالی نظام کے کھنڈرات پر ابھرے گا، جس سے انسانیت دوبارہ اپنے آپ کو تلاش کرے گی۔

کلارا زیٹکن، سوشلسٹ اور بعد میں کمیونسٹ (1918 میں اس نے جرمن کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد میں تعاون کیا)، سوشل ڈیموکریٹ اگست بیبل کی 1879 میں شائع ہونے والی کتاب "عورت اور سوشلزم" کو خراج تحسین پیش کیا: "یہ ایک کتاب سے زیادہ تھی۔ یہ ایک واقعہ تھا – ایک عظیم کام۔ ایک ایسی کتاب جس کی وجہ سے اب پہلی بار خواتین کے سوال اور تاریخی ترقی کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی گئی۔ پہلی بار درخواست سنائی دی، اس کتاب کی طرف سے کہ: ہم مستقبل کو تب ہی فتح کریں گے اگر ہم عورتوں کو جدوجہد میں شریک بننے پر آمادہ کریں گے، ساتھی کی طرح۔

کتاب کے آخر میں بیبل نے اس موقف کا خلاصہ کیا ہے جو بعد میں پرولتاریہ خواتین کی تحریک کی طرف سے لیا جائے گا: "عورت کو بھی، اور خاص طور پر پرولتاریہ عورت سے کہا گی ہے کہ وہ اس جدوجہد میں پیچھے نہ رہیں جو اس کی آزادی اور نجات کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ یہ ثابت کرنا اس پر منحصر ہے کہ اس نے تحریک میں اور حال کی جدوجہد میں اپنے حقیقی مقام کو پہچان لیا ہے اور ایک بہتر مستقبل کی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے پرعزم ہے۔ مردوں کا فرض ہے کے وہ ان کی مدد کریں تمام تعصبات کو پھینکنے میں عظیم جدوجہد میں حصہ لینے میں۔ کوئی بھی اپنی طاقت کو کم نہ سمجھے، اور یہ نہ سوچے کہ اس کی مدد کا کوئی فائدہ نہیں ہے"۔ 1913 تک، کتاب 50 بار دوبارہ چھپی تھی!

اسی طرح، اینگلز 1884  میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "خاندان، ذاتی ملکیت، اور ریاست کا آغاز" میں خواتین کے جبر کے اسباب کی ایک روشن وضاحت پیش کرتا ہے یہ کہ سرمایہ دارانہ معاشی ترقی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خواتین کی مزدوری ک حصول ایک ضروری تھا۔ ان کی نجات کے راستے پر قدم کے لیے۔

’’ آنتی دورینگ’’ میں اینگلز، چارلس فوئیر کو اس بات کا ادراک کرنے والے پہلے شخص ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ" عورت کی آزادی کا درجہ عمومی آزادی کا فطری پیمانہ ہے"، اور اسی لیے مرد کی بھی۔ "مقدس خاندان" میں مارکس نے فوئیر کا حوالہ دیا ہے "مؤنث جنس کی تذلیل تہذیب کے ساتھ ساتھ بربریت کی ایک لازمی خصوصیت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تہذیب کا نظام ہر اس برائی کو اٹھاتا ہے جو بربریت میں تو  ایک سادہ عمل کی شکل میں ہوتی ہے، لیکن اب ایک مرکب، متضاد، مبہم، بر بھسیا شکلے اپناتی ہیں، عورت کو غلامی میں رکھنے کی سزا خود مرد سے زیادہ کسی کو نہیں دی جا سکتی"۔

عورتوں کے عالمی دن کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ جڑ


جیسے جیسے سرمایہ تبدیل ہوا اور اسے زیادہ سے زیادہ خواتین کی محنت کی ضرورت تھی، مردوں اور عورتوں کے درمیان زیادہ مساوی سماجی شناخت کے مطالبات زور پکڑ گئے۔ تاہم، نام نہاد "فیمنسٹ" تحریک نے جلد ہی دو راستے اختیار کیے: ایک بورژوا ، جس نے اجرتی مزدور کے استحصالی تعلق پر سوال نہیں اٹھایا، اور دوسرا سماجی جمہوری اور مارکسی۔

دوسری انٹرنیشنل کے اندر، جرمن سوشل ڈیموکریسی کے زیر تسلط، تیز رفتار اقتصادی ترقی کے حامل جرمنی میں، یہ کلارا زیٹکن ہی تھیں جنہوں نے خواتین کے جبر کے مسئلے سے نمٹا، فیمنسٹ تحریک کو "بورژوا" قرار دیا، کیونکہ اس نے سرمایہ داری پر سوال نہیں اٹھایا اور خاص طور پر خواتین کو طبقاتی جدوجہد میں نہیں لایا۔1889 میں دوسری انٹرنیشنل کی بانی کانگریس میں، زیٹکن نے یاد دلایا کہ "خواتین کی آزادی کا سوال بالآخر خواتین کی مزدوری کا سوال ہے،" اور قانون سازی کا مطالبہ کیا جو " برابر کام کے لیے برابر تنخواہ" کے اصول کا احترام کرے گا۔ آج بھی یہ پکار ایک امید بنی ہوئی ہے، حتیٰ کہ "ترقی یافتہ" ممالک میں بھی!۔

اس وقت، 20ویں صدی کے آغاز میں سوشلسٹوں کے لیے طبقاتی جدوجہد کی سیاسی تحریک میں محنت کش خواتین کو شامل کرنا ایک معاملہ تھا۔ 1896 میں، جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی گوتھا کانگریس میں، زیٹکن نے دوسرے عسکریت پسندوں اور برنسٹینی ترمیم پسندوں کی رائے کے خلاف، پرولتاریہ خواتین کی تحریک کی بورژوا خواتین کے حقوق کی تحریک سے واضح علیحدگی کا پرجوش دفاع کیا: ان دونوں تحریکوں میں اب کوئی چیز مشترک نہیں رہی۔ زیٹکن نے استدلال کیا، پرولتاریہ عورت طبقاتی جدوجہد میں ایک لڑاکا ہے اور اس کی آزادی تمام طبقات کی خواتین کا کام نہیں ہو سکتا۔ صرف پورا پرولتاریہ، صنف میں فرق کیے بغیر ، پرولتاریہ عورت کی آزادی کا باعث بن سکتا ہے۔

اور، ہم یہ شامل کرتے ہیں کہ تمام خواتین کی آزادی صرف ایک کامیاب کمیونسٹ انقلاب سے ہی  آئے گی!

1890 سے سوشلسٹ خواتین کی تحریک کی انتھک نشر و اشاعت کرنے والی، زیٹکن اس طرح بورژوا خواتین کی تحریک کے خلاف پرولتاریہ خواتین کی تحریک کی خالق تھیں۔1850 سے 1908 تک پرشین قانون کے ذریعے خواتین کی سیاست میں شمولیت پر پابندی کی وجہ سے، جرمن خواتین کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے زیٹکن نے ایس پی ڈی کے اندر ایک متوازی اور خود مختار ڈھانچہ منظم کی اور 1900سے ہر پارٹی کانگریس سے پہلے خواتین کی کانفرنس منعقد کی گئی۔ جب انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، تو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے خواتین کے حصے کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن زیٹکن نے بج طور پر اعتراض کیا: وقت مناسب نہیں تھا۔

سوشلسٹ خواتین کی پہلی بین الاقوامی کانگریس سٹٹ گارٹ میں ہوئی، جس میں دوسری انٹرنیشنل کی مختلف جماعتوں کی خواتین کی تحریکوں کو اکٹھا کیا گیا، جس نے  سوشلسٹ انٹرنیشنل ویمن تشکیل دیا۔ اس نے کام کرنے والی خواتین کے لیے عالمی رائے دہی کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت، "مقامی طبقوں" کی بورژوا تحریک نے ووٹ دینے کے حق کا مطالبہ انہی حالات میں کیا جو مردوں کی طرح ہے: یعنی مردم شماری کی بنیاد پر، جس میں بہت سے ممالک میں مزدوروں کو خارج کر دیا گیا تھا۔ لیکن، بورژوا فیمنسٹوں کے برعکس، یہ جمہوری دعویٰ اپنے آپ میں ختم نہیں تھا۔ سوشلسٹوں کے لیے اس کا واضح طبقاتی مفہوم تھا۔

خواتین کا پہلا قومی دن 28 فروری 1909 کو منایا گیا تھا، جسے سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے شروع کیا اور یہ 1913 تک جاری رہا۔ وہاں "فیمنسٹ" تحریک انیسویں صدی کے وسط سے بہت زیادہ ترقی کر چکی تھی اور اس کا مقصد دیگر چیزوں کے علاوہ، خواتین ک انتخابی حق رائے دہی، جو اس نے 1920 میں حاصل کیا۔

دوسری بین الاقوامی کانفرنس، جس میں بالشویک الیگزینڈرا کولونٹائی سمیت 17 ممالک کی خواتین کو اکٹھا کیا گیا، اگست 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی۔ 19 مارچ کی تاریخ کو چننا گیا۔ پرشیا، برلن میں 1848 کی انقلابی بغاوت کی کامیابی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، اور اسے اس طرح دیکھا گیا کہ، یہ بغاوت الگ نہیں کی جا سکتی تمام محنت کشوں کی جدوجہد سے، ان کی صنف میں فرق کرے بغیر۔ پہلی بار سالانہ رسم 19 مارچ 1911 کو کامیاب ہوئی: ایک ملین سے زیادہ خواتین نے، نہ صرف سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے زیر اہتمام، جرمنی، آسٹریا، ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ میں خواتین کے حق رائے دہی کے لیے مظاہرے کیے، اور اس موقع پر بے شمار اجلاس منعقد کیے گئے۔

1913 میں، فروری کے آخری اتوار کو، روسی خواتین نے جنگ مخالف وسیع تحریک کے حصے کے طور پر خواتین کے حقوق کا پہلا عالمی دن منایا۔

انتظام نشر و اشاعت ک کام انتہائی موثر تھا۔ ایس پی ڈی پارٹی میں خواتین کارکنوں کی تعداد 1905 میں 4000 سے بڑھ کر 1914 میں 174,754 (1,085,905 اراکین میں سے) ہو گئی، جن میں سے زیادہ تر پارٹی کے بائیں بازو کی ہمدرد تھیں۔ زیٹکن کا قائم کردہ اخبار (جو جرمن زبان میں تھا)،(’’مساوات’’) سب ٹائٹل کے ساتھ ’’اخبار محنت کش خواتین کے مفادات کے لیے’’،1892 سے 1923 تک شائع ہوا (زیٹکن کو 1917 میں ادارتی عملے سے ہٹا دیا گیا)، جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین کی تنظیم کی مرکزی اشاعت بن گئی۔ یہ 1902 میں 4000 کاپیاں سے بڑھ کر 1914 میں 124,000 تک پہنچ گئی۔

جرمن ٹریڈ یونینوں میں، 1914 میں 2.5 ملین کی کل رکنیت میں سے، 216,000 خواتین تھیں۔

جنگ کے دوران سوئٹزرلینڈ میں 1915 میں سوشلسٹ خواتین کی بین الاقوامی کانگریس کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جرمن کلارا زیٹکن اور روسیوں الیگزینڈر کولونٹائی اور انیس آرمنڈ نے شرکت کی۔

یہ پیٹرو گراڈ میں 8 مارچ 1917 (اس وقت کے روسی کیلنڈر میں 23 فروری) کو خواتین مزدور کے مظاہرے تھے جنہوں نے روٹی اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس سے روس میں انقلابی بغاوت شروع ہوئی۔ تب سے اس تاریخ تک کمیونسٹ پارٹیوں کی طرف سے خواتین کو متحرک کرنا تھا۔ روس کی انقلابی مشعل نے چند سالوں کے لیے باقی پرولتاریہ دنیا کو روشن کیا، مستقبل کے کمیونسٹ معاشرے کی روشنی کی جھلک پیش کی۔

یاد رہے کہ ان کوششوں کے باوجود، خود سوشلسٹ سیاسی تنظیم کے اندر، خواتین کے لیے حالات ہمیشہ آسان نہیں تھے۔ جب کہ ایس پی ڈی تیزی سے اصلاح پسند بنتی گئی،(لیجین)  کی زیر قیادت یونینوں کی حمایت سے، پارٹی کے اندر خواتین عسکریت پسندوں کے کام میں تیزی سے رکاوٹیں آتی جا رہی تھیں، خاص طور پر پہلی جنگ عظیم تک کے سالوں میں۔ زیٹکن کو اپنی پارٹی میں خواتین اور مردوں کی مخالفت کا سامن کرنا پڑا۔ جس نے اسے، بشمول بیبل، کو بورژوا فیمنسٹ تحریک کی طرف اس کی عدم دلچسپی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بیبل سمیت اس پر بورژوا فیمنسٹ تحریک کے تئیں غیر سمجھوتہ کرنے والے رویے کا الزام لگایا۔1908 کے اوائل میں کارل لیجین نے دھمکی دی کہ وہ خود ایک خواتین کے ٹریڈ یونین اخبار کو شائع کرنا شروع کر دے گا، "مساوات اخبار" کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے کیونکہ اس نے بڑے پیمانے پر ہڑتال کی حمایت کی تھی، جس کی ٹریڈ یونینسٹ اور سوشل ڈیموکریٹک اصلاح پسندوں نے مخالفت کی تھی۔1910 میں پارٹی ہیڈ کوارٹر نے مالی مشکلات کو بہانہ بنا کر کانگریس سے پہلے سوشلسٹ خواتین کی کانفرنس بلانے سے انکار کر دیا۔ ایس پی ڈی کے خواتین کے حصے کو 1912 میں منقطع کر دیا گیا تھا، اور روزا لکسمبرگ کے ارد گرد پورے بائیں بازو کے ساتھ زیٹکن تیزی سے پسماندہ ہو رہی تھی۔

عورتوں کا ووٹ کا حق


اہم مطالبات میں سے ایک، مزدوری کے حقوق کے علاوہ، ووٹ کا حق تھا۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے پہلے ہی 1891 میں اپنے پروگرام میں تمام شہریوں، مردوں اور عورتوں کو ووٹ دینے کا حق شامل کیا تھا، جو ایسا کرنے والا واحد ہے۔ 1891 میں خواتین کا پہلا سوشلسٹ اخبار، ("دی وومن ورکر") شائع ہوا۔ 1871 میں ریخ کے قیام کے بعد سے ہی مردوں کے لیے عالمگیر حق رائے دہی موجود تھا، لیکن پرشیا میں مردم شماری کا نظام تین سطحوں پر برقرار رہا، جس میں ٹیکس کی آمدنی کے لحاظ سے ووٹوں کا وزن مختلف تھا، جس سے ظاہر ہے کہ کارکنوں کو خارج کر دیا گیا تھا۔

اپریل 1917 میں، شہنشاہ نے جنگی کوششوں کے انعام کے طور پر، پرشیا میں طبقاتی حق رائے دہی کے خاتمے کا اعلان کیا، لیکن اس نے خواتین کو یہ نہیں دیا، حالانکہ وہ قومی جسم میں جنگی قربانیوں میں بہت زیادہ شریک تھیں۔ 2 اکتوبر 1918 کو جرمنی انقلابی بخار کی لپیٹ میں تھا، پارلیمنٹ نے ووٹنگ کے مساوی حقوق کی منظوری دی، لیکن صرف مردوں کے لیے!

نومبر 1918 کے آغاز میں برلن، ہیمبرگ اور میونخ میں بورژوا اور سوشل ڈیموکریٹک خواتین کی بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ 9 نومبر کی انقلابی بغاوت نے دائیں بازو اور "بائیں بازو کے" سوشل ڈیموکریٹس کا اتحاد "پیپلز کمیسرز" کی حکومت کو اقتدار میں لایا، جو ایک عوامی تحریک کے فوائد حاصل کر رہے تھے، وہ جلد ہی اس تحریک کو دبانے والے تھے۔ انہوں نے جمہوری آزادیوں، 8 گھنٹے کا دن، اجتماعی معاہدوں، بے روزگاری کے فوائد وغیرہ کا وعدہ کیا، جن کی مالکان کو 15-16 نومبر کو توثیق کرنی ہوگی۔12 نومبر کو، "عوام کے کمیشنر" کی حکومت نے مردوں اور عورتوں کے لیے عالمی رائے دہی کا اعلان کیا۔ درحقیقت یہ حکومت پہلے سے ہی قومی اسمبلی کے انتخابات کے ذریعے مزدوروں اور فوجیوں کی کونسلوں سے اقتدار واپس لینے کا منصوبہ بنا رہی تھی جس کی تاریخ دسمبر میں 19 جنوری 1919 کے لیے طے کی گئی تھی۔ اسمبلی ہوئی، لیکن برلن کے انقلابیوں کی لاشوں پر! حکمران طبقات کی طرف سے انتخابات کے استعمال کی یہ ڈرامائی طور پر اہم مثال ہے۔

جرمنی اس وقت 1906 میں فن لینڈ، 1913 میں ناروے اور فروری 1917 کے انقلاب کے ساتھ روس کے بعد، خواتین کے حق رائے دہی کو متعارف کرانے والے پہلے یورپی ممالک میں سے ایک تھا۔22 نومبر 1918 کے اسپارٹاسٹ آرگن، جرمن زبان میں’’ ڈائی روٹ فہنے’’ نمبر 7 میں ایک مضمون میں اس کا خیرمقدم کیا گیا تھا، روزا لکسمبرگ کا ایک مضمون جسے کلارا زیٹکن نے لکھا تھا، جس کا عنوان تھا ’’خواتین اور قومی اسمبلی’’ ایک پیراگراف کے ساتھ ’’ عورتوں کا شکریہ۔’’ محنت کش عورتوں کو سیاست میں ان کی شرکت کی اہمیت کے بارے میں یاد دلایا گیا، اس بکواس کی مذمت کی جس نے انہیں ووٹ ڈالنے کے قابل ’’نادان’’ سمجھا تھا۔ لیکن یہ واضح تھا کہ خواتین کی یہ ترقی صرف پرولتاری تحریک کے دائرہ کار میں ہی اہم ہو سکتی ہے نہ کہ اس سے باہر، جیسا کہ بعد کے سالوں میں ان تمام ممالک میں ہو جنہوں نے اسے منظور کیا۔ اس کے بعد سے حکمران طبقات کے حق میں خواتین کو جمہوری فریب میں مبتلا کرنے کا دوسرے طریقوں کی طرح  صرف ایک ذریعہ تھا۔

برلن کے واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدامنی کے باوجود، غدار سوشل ڈیموکریٹس کے اقتدار میں آنے کے بعد، 9 نومبر کو مزدوروں اور فوجیوں کی کونسلوں کی ناکامی تھی، جنہوں نے اگلے دن اپنے تمام اختیارات جو پورے جرمنی میں پچھلے ہفتوں کی جدوجہد میں شاندار طریقے سے حاصل کیے گئے تھے،  حکومت کے حوالے دیے۔ اسپارٹاسٹس نے اپنے اخبار کے ساتھ اور میٹنگوں میں سوشل ڈیموکریٹس کی بداعمالیوں کی مذمت کی، بورژوا اور سوشل ڈیموکریٹک پریس کے "اسپارٹاسٹ ڈاکو" کے خلاف بڑھتے ہوئے گھناؤنے حملوں کے باوجود۔

لکسمبرگ اور زیٹکن نے انقلاب میں خواتین کے سوال پر بہت توجہ دی۔ جرمنی میں نومبر-دسمبر 1918 کے انقلابی دور میں بھی روزا نے ہمیشہ خواتین کی کھلبلی کی اہمیت، انقلاب میں ان کے اہم کردار پر زور دیا۔ 24 نومبر کو، اس نے کلارا کو ڈائی روٹ فاہنے کے لیے روزانہ ضمیمہ لکھنے کی تجویز پیش کی جس میں خواتین کے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی، یا یہاں تک کہ ایک علیحدہ اخبار۔ لیکن جنوری 1919 کے واقعات اور کمیونسٹوں کے خلاف خوفناک جبر نے ان کی مشترکہ کوششوں کو ناکام بن دیا۔

اپریل 1920 میں، ویمنز  کمیونسٹ انٹرنیشنل (آئی سی ایف) بنائی گئی، جو کمیونسٹ انٹرنیشنل سے وابستہ تھی۔ اس کے سیکرٹریٹ کی سربراہی زیٹکن نے کی، اس میں آٹھ خواتین شامل تھیں، جن میں سے چھ روسی، ایک ڈچ اور ایک سوئس تھیں۔ اگست 1920 میں، 28 ممالک کے 82 مندوبین کے ساتھ ایک کانفرنس ماسکو میں کمیونسٹ بین الاقوامی کی دوسری کانگریس کے متوازی طور پر منعقد ہوئی۔ 1921 میں کمیونسٹ بین الاقوامی کی تیسری کانگریس میں، خواتین میں پروپیگنڈے کے بارے میں کولونٹائی رپورٹ کو منظوری دی گئی۔ آئی سی ایف نے ویمنز کمیونسٹ بین الاقوامی کے نام سے ایک میگزین بھی شائع کیا، ایک دو ماہانہ، جو 1921 سے 1925 تک شائع ہوا۔ دیگر کمیونسٹ پارٹیوں نے بھی خواتین کے رسالے شائع کیے جیسے اطالوی کمیونسٹ پارٹی کا ’’ کمپگنا’’، نیدرلینڈ کا ’’ لا میسیجیر’’ تین میگزین چیکوسلواکیہ میں، اور تین روس میں۔ لیکن اگر کولونٹائی کے زیر اہتمام انتظام نشر و اشاعت کا کام روس میں بہت زیادہ کامیاب رہا تھا، تو  آئی سی ایف کو دوسرے ممالک میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

زیٹکن نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کو اہمیت دی اور کمیونسٹ تحریک میں خواتین کو منظم کرنے میں شامل ہو گئیں۔

لیکن پہلے ہی 1925 میں کمیونسٹ بین الاقوامی کی تنزل پذیر ایگزیکٹو کمیٹی نے کمیونسٹ خواتین کی تحریک کو دوبارہ منظم کرنے کا فیصلہ کیا: بین الاقوامی خواتین کا سیکرٹریٹ ایگزیکٹو کمیٹی کا خواتین کا حصہ بن گیا،  آئی سی ایف کی اشاعت "مالی وجوہات کی بناء پر" معطل کر دی گئی۔ اس طرح کمیونسٹ خواتین کی تحریک کی خودمختاری کا خاتمہ کمیونسٹ انٹرنیشنل میں خواتین کی ایک مخصوص تنظیم کے خاتمے کے ساتھ ہوا، جو رد انقلابی بن چکی تھی۔ آئی سی ایف کو 1930 میں باضابطہ طور پر ختم کر دیا گیا تھا!

الیگزینڈر کولونٹائی کی ’’ نئی عورت’’


درحقیقت، کمیونسٹ الیگزینڈرا کولونٹائی، جس نے آئی سی ایف کی 1910 کی کانگریس میں سینٹ پیٹرزبرگ کے ٹیکسٹائل ورکرز کی نمائندگی کی، زیٹکن کی جدوجہد میں شامل ہوئی۔ 1900 کے اوائل میں روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں اس نے پارٹی میں خواتین کے لیے ایک خصوصی کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔ اسے 1908 میں روس سے بھاگنا پڑا صرف 1917 میں واپس آنے کے لیے۔ اس نے 1915 میں بالشویکوں میں شمولیت اختیار کی، 1917 کی کمیونسٹ حکومت میں سماجی امور اور خواتین کے مسائل کے لیے عوامی کمیشنر کے طور پر کام کیا، پھر 1923 میں ناروے میں سفیر کے طور پر کام کیا۔ وہ تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اور سفیر تھیں!

وہ لینن کی مکمل حمایت کے ساتھ خواتین کی آزادی، طلاق، آزاد اتحاد، شادی سے باہر بچوں کی قانونی حیثیت، اسقاط حمل اور مانع حمل کا حق، مساوی تنخواہ، وغیرہ۔ وہ ایک ناقابل یقین پروپیگنڈاسٹ تھیں۔

’’ آزاد محبت’’ کا اس کا تصور، جس میں جنسیت کو محبت سے الگ کر دیا گیا تھا - وہ تصور جن کے بارے میں لینن اور زیٹکن بہت شکی تھے - جس کی وجہ سے اسے کچھ مشکلات کا سامن کرنا پڑا۔ وہ انیس آرمنڈ (جو اکتوبر 1920 میں ہیضے سے مر گئی) کے ساتھ 1919 میں بنائی گئی (اور 1930 میں تحلیل ہو گئی) مرکزی کمیٹی میں خواتین کے کام کی انچارج ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ تھیں۔

اپنی 1913 کی کتاب ’’ دی نیو وومن’’ میں، اس نے لکھا:

’’تو پھر یہ نئی عورتیں کون ہیں؟ وہ وہ پاکیزہ، ’’اچھی’’ لڑکیاں نہیں ہیں جن کا رومانس انتہائی کامیاب شادی پر منتج ہوتا ہے، وہ ایسی بیویاں نہیں ہیں جو اپنے شوہروں کی بے وفائیوں کا شکار ہوں، یا جنہوں نے خود زنا کیا ہو۔ نہ ہی وہ بوڑھی نوکرانیاں ہیں جو اپنی جوانی کی ناخوشگوار محبت پر غم کرتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ وہ ’’محبت کی پجاری’’  ہیں، خراب حالات زندگی یا ان کی اپنی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ نہیں، یہ بالکل نئی ’’پانچویں’’ قسم کی ہیروئن ہے، جو اب تک نامعلوم ہے، زندگی کے آزاد تقاضوں کے ساتھ ہیروئنیں، اپنی شخصیت کا دعویٰ کرنے والی ہیروئین، ریاست ،خاندان، سماج، میں عورت کی عالمگیر غلامی کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیروئن اور اپنی جنس کے نمائندے کے طور پر ان کے حقوق کے لیے لڑنے والی۔ اکیلی، آزاد خواتین ہیں جو زیادہ سے زیادہ اس قسم کا تعین کرتی ہیں۔

لیکن کولونٹائی کے لیے خواتین کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد سے جڑی ہوئی تھی۔ محنت کش خواتین کے درمیان اس کی عسکریت پسندی میٹنگوں، محلوں میں خواتین کے حصوں، کاروباروں اور ورکشاپوں کے ذریعے کی گئی، جس کی شاخیں سوویت کے پورے علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں۔

جون 1921 میں کمیونسٹ بین الاقوامی کی تیسری کانگریس میں خواتین کے درمیان پروپیگنڈے کے لیے مقالے، کولنٹائی نے پیش کیے، جس کی حمایت زیٹکن نے کی، اور جس میں لکھا ہو تھا:

  ’’حصوں میں بنیادی مشن کو پورا کرنے کے لیے، یعنی پرولتاریہ کی عظیم خواتین کی کمیونسٹ تعلیم اور کمیونزم کے چیمپیئنوں کے کیڈرز کو مضبوط کرنے کے لیے، یہ ناگزیر ہے کہ مشرق اور مغرب کی تمام کمیونسٹ پارٹیاں عورتوں کے درمیان کام کے لیے یہ اصول اپنا لیں کہ: ’کھلبلی اور انتظام نشر و اشاعت عمل کے ذریعے۔’

’’کھلبلی بذریعہ عمل کا مطلب ہے محنت کش عورت کی پہل کو بیدار کرنا، تنظیم اور جدوجہد کے میدان میں عملی کام کی تربیت دے کر اس کی اپنی طاقت پر اعتماد کی کمی کو دور کرنا، اسے حقیقت سے سمجھنا سکھانا ہے کہ ہر کمیونسٹ پارٹی کی کامیابی، سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف ہر اقدام، ایک پیش قدمی ہے جو خواتین کی صورت حال کو بہتر کرتی ہے(۔۔۔)حقائق کے ساتھ کمیونسٹ خیال کا انتظام نشر و اشاعت سوویت روس میں مزدور ، کسان، مزدوروں کو لانے میں شامل ہے۔ گھریلو خواتین تمام سوویت تنظیموں میں شامل ہوں، فوج اور ملیشیا سے شروع ہو کر خواتین کی آزادی کے لیے تمام کاموں پر اختتام پذیر ہوں۔’’

قابل غور بات یہ ہے کہ 1920 کی دہائی کی مختلف جرمن بغاوتوں میں انقلابی مسلح دستوں کی تشکیل میں تاریخ دان کبھی بھی خواتین کی بٹالین کے وجود کا ذکر نہیں کرتے، جب کہ روسی انقلاب میں فروری 1917 کے انقلاب کے بعد خواتین کی پندرہ جنگی فارمیشنیں تھیں۔ تشکیل دیا گیا، جن میں سے دو فرنٹ پر ملازم تھے، اور بہت سے دوسرے روس بھر کے شہروں میں۔ 1918 کے اوائل میں بالشویک فوجیوں اور اہلکاروں کی دشمنی کی وجہ سے خواتین کی یہ بٹالین آہستہ آہستہ ختم ہو گئی تھیں۔

1926 میں روسی پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پرولتاریہ خواتین کی علیحدہ تنظیموں کے قیام کی مخالفت کی۔ اور کمیونسٹ بین الاقوامی کے انحطاط کے ساتھ، سٹالنسٹ رد انقلاب نے روایتی خاندانی ماڈل کی طرف واپسی مسلط کی۔

عالمی یوم خواتین کا جمہوری فریب میں افسوسناک تحلیل


1945 کے بعد، 8 مارچ کی کمیونسٹ جڑ، بنیاد کو فراموش کر دیا گیا،’’ قومی یکجہتی’’ میں ڈوبا دیا گیا جس کی حمایت اب سٹالنسٹ اور رد-انقلابی جماعتوں نے کی ہے۔

کئی سالوں سے 8 مارچ صرف نام نہاد ’’ کمیونسٹ’’ ممالک اور پارٹیوں میں منایا جات تھا۔ یہ 1960 اور 1968 کی تحریک کے بعد سے، اپنی ’’فیمنسٹ’’ لہر کے ساتھ، 8 مارچ کے مظاہروں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس طرح تمام افق کی جمہوری جماعتوں نے اسے اپنا لیا ہے۔ 1975 میں اقوام متحدہ نے خواتین کے عالمی سال کا اعلان کیا اور 1977 میں 8 مارچ کو ’’ خواتین کا عالمی دن’’ کے طور پر اپنایا،  2016 میں ’’خواتین کا عالمی دن’’ بن گیا۔ مختصراً، یہ دن بہت سی بورژوا اور چھوٹی-بورژوا تحریکوں کے لیے ایک موقع بن گیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ ہونے والی غلط عملات  کی مذمت کریں، خواہ ان کا طبقہ کوئی بھی ہو، اکثر مظلوم کے طور پر ان کی حیثیت کا استحصال کرتے ہوئے ان کی لڑنے کی صلاحیت سے انکار کرتے ہے۔

8 مارچ ک دن اب ایک ’’مقبول’’ تعطیل ہے، جس کی قیادت بائیں بازو کی گروہ بندیوں سے لے کر دائیں بازو کی جماعتوں تک، کسی بھی انقلابی پیغام کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ ایک جمہوری رسم جو طبقاتی جدوجہد کی ہلکی سی چنگاری کو بجھا دیتی ہے۔ یہ خواتین کی جدوجہد کے بھرم کو برقرار رکھتی ہے، ان کے مطالبات کی فہرست کے ساتھ، جمہوریت کے اندر دب جاتی ہے۔ اس دوران، خواتین کے خلاف جارحیتیں جاری ہیں، خاندانوں کے اندر اور باہر، غیر منصفانہ برطرفی، پدرانہ نظام کی افسوسناک گواہی، جس کا موجودہ معاشی بحران زور پکڑ رہا ہے۔

یہ خواتین کی کمیونسٹ تحریک کے عظیم کارکنوں کا سبق ہے: طبقاتی جدوجہد کے بغیر اور کمیونسٹ پارٹی اور طبقاتی یونین تنظیموں کی قیادت کے بغیر خواتین کی حقیقی جدوجہد نہیں ہو سکتی۔ کمیونسٹ انقلاب کے بغیر خواتین پر ظلم کے خاتمے ک کوئی راستہ نہیں!

خواتین کی اپنے جبر کے خلاف جدوجہد کا راستہ تمام جبر کے خلاف ہی ہو سکت ہے۔ جیسا کہ زیٹکن نے کہا، ’’ پرولتاریہ عورت بورژوا عورت کی طرح اپنی آزادی اپنے ہی سماجی طبقے کے مرد سے لڑ کر حاصل نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، وہ اپنے سماجی طبقے کے آدمی کے ساتھ مل کر بورژوا سماج کے خلاف اور یہاں تک کہ بورژوا طبقے کی خواتین کی بڑی تعداد کے خلاف لڑ کر اسے فتح کرتی ہے۔’’

خواتین، اپنے آپ کو اس جبر سے قطعی طور پر نجات دلانے کے لیے، اس کے سو کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ موجودہ معاشرے کو تباہ کرنے اور ایک نئے معاشرے کی تعمیر کی جدوجہد میں اپنے ساتھی محنت کشوں کا ساتھ دیں، طبقات اور جبر کے بغیر معاشرہ!

ایک ایسے انقلاب کو ہونا ہوگا جس میں دونوں جنسوں کے پرولتاریہ ایک دوسرے کے ساتھ اور صنفی کردار کے بغیر ایک ساتھ جدوجہد کریں۔